کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟؟

کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟؟
erfan.omar@theacenews.com تحریر ڈاکٹر عرفان عمر     اپنی آراء کے لیئے ای میل کیجئے

1843ء میں ہندوستان کا ایک بہت بڑا حصہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری میں تھا، لیکن اپنی عملداری کی توسیع کے لیے 1942 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے افغانستان کو اپنی کالونی بنانے کے لیے 40 ہزار کا لشکر جرار (جس میں زیادہ تر ہندوستانی کسانوں کے لختِ جگر تھے) افغانستان فتح کرنے کے لیے بھیجا، تو اس سے ہوا یہ کہ کابل باآسانی فتح ہو گیا ،کوئی بڑا خون خرابہ نہیں ہوا ،افغان قبیلوں کے جنگجو چپ چاپ دروں اور دور دراز کے دیہاتوں میں روپوش ہو گئے۔

برطانوی فوج فتح کو جشن منانے لگی ،جہاں کچھ برطانوی فوج کے افسروں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ افغانستان کے دارلخلافہ کابل کو ہندوستان کا گرمیوں کے موسم میں دارلحکومت بنا دیا جائے۔پھر قسمت نے پلٹا کھایا اور نجانے کونسی آندھی آئی کہ اس لشکرِ جرار کے کچھ سپاہیوں کے علاوہ سب کو افغان زمین کھا گئی۔

اصل میں ہوا کچھ یوں کہ جو افغان قبائلی قبضہ کے چند روز کے اندر چھپ گئے تھے انہوں نے اپنے معمولی ہتھیاروں سے کمپنی بہادر کے لشکر کو مسل کر رکھ دیا۔

ولیم ڈیل رمپل ایک برطانوی ریسرچ سکالر ہے ،وہ کچھ مہینوں پہلے افغانستان اسی معاملے کی تحقیق کرنے گئے کہ آخر ایسا کیوں ہوا ایک طرف برطانوی فوج کے سورما اور دوسری طرف بے سروسامان افغانی پھر بھی افغانیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو کیسے مار بھگایا۔

ولیم ڈیل کے ہاتھ اس جنگ سے بچ جانے والے ایک عیسائی راہب جی ایچ گلِیگ کی ڈائری لگ گئی جس نے انہیں اس بات پر اکسایا کہ وہ اس بات کا کھوج لگائیں۔

اس عیسائی راہب نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا ’’یہ ایک ایسی جنگ تھی جس کا کوئی مقصد نہیں تھا اس میں بزدلی اور جلد بازی کا ملا جلا رجحان تھا، جس کا اختتام تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ جس سے نا تو حکومت جس نے اس مہم کی ہدایت کی تھی کے وقار میں ہی اضافہ ہوا اور نا ہی شاہی فوج کو اس جنگ نے کوئی وقار بخشا۔ اس جنگ سے کوئی ایک بھی فائدہ نا فوجی اور نا ہی سیاسی حاصل ہو سکا اور جب ہم واپس ہوئے تو تو جو واپس آئے وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ میں اکیلا ہی بچ گیا ہوں۔ اتنی بے توقیری کہ قابلِ بیان نہیں۔

ڈَیل رملپ کو اس راہب کی کہی اور بات اور آج کے افغانستان میں واضع مشابہت نظر آئی۔ جب امریکی افواج نے اعلان کیا کہ وہ اگلے سال افغانستان سے واپس جا رہی ہیں تو ڈَیل کو مکمل یقین ہو گیا کہ 1843ء اور 2011 ء میں وقت تو کافی گزر چکا مگر تاریخ اور حالات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔آج امریکہ اور اس کے حواریوں کا بھی وہی حال ہے جو اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی اور برٹش سامراج کا تھا۔

اس سے ایک بات تو واضع ہو جاتی ہے کہ افغانستا کو تاریخ دانوں نے ’’سامراجوں کا قبرستان ‘‘ یوں ہی نہیں کہہ دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سکندر سے لیکر دارا تک اور نئی تاریخ میں برطانیہ ،روس اور اب امریکہ جس نسل نے افغانیوں کے ہاتھوں روس کی درگت بنتی دیکھی وہی نسل ابھی زندہ ہے اور آج امریکہ کی درگت بنتی دیکھ رہی ہے۔

ڈیل رمپل کے مطابق جب امریکہ میں 9/11 کا واقعہ رونما ہوا،اور امریکہ فضائیہ نے افغانستان پر دھاوا بول کر کابل کو فتح کر لیا تو انہوں نے بھی سمجھا تھا کہ وہ بازی مار چکے ہیں مگرحالات اس سے یکسر مختلف واقع ہوئے، امریکی صدر بش نے اسی عارضی فتح کی شہہ پر عراق پر بھی دھاوا بول دیا مگر آج امریکی جانتے ہیں کہ یہ دونوں فتوحات بالکل جھوٹ اور عارضی تھیں۔ ڈمپل وہ تمام جگہیں دیکھنا چاہتے تھے جہاں ایسٹ انڈیا کمپی کی فوج کا دھڑن تختہ کیا گیا، اس کے لیے افغانی صدر کی جاب سے انہیں ایک قبائلی سردار کے سپرد کیا جو کشتی رانی کے سابق چیمپئن رہ چکے ہیں۔

سردار انور خان جڈالک نے ڈَمپل کو بڑے فخر سے بتایا کہ برطانوی فوج کو نیست و نابود کرنے والوں میں اس کے جدِ امجد بھی شامل تھے۔ یہ دونوں اس سردار کے گاؤں جڈالک پہچے تو وہاں پتہ چلا کہ صرف ایک دن پہلے گاؤں والو نے افغان فوج کا مقابلہ کر کے ان کے 17 افراد کو ہلاک اور 9 کو اسیر بنا لیا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ اس گاؤں والوں نے ایک سال پہلے افیون کی کاشت کی تھی تو صدر حامد کرزائی نے اعلان کیا تھا کہ آپ اس فصل کو ضائع کر دیں ہم اس کا معاوضہ دیں گے تو گاؤں والوں نے کھڑی فصل کو آگ لگا دی، لیکن اس کا معاوضہ ایک سال بعد بھی نہیں ملا ہے اس پر انہوں نے اس بار پھر فصل کاشت کی جس پر فیصلہ کیا گیا کہ اگر اس بار پھر حامد کرزائی کی فوج آئی تو انہیں سزا دی جائے گی۔

اب کی بار فوجی آئے اور سزا پا کر چلے گئے۔یہ سار واقعہ اس گاؤں کے ایک بزرگ نے سنایا تھا جو اس گاؤں کا ایک سردار تھا اس بزرگ نے یہ بھی بتایا کہ کچھ دنوں پہلے امریکی فوج کے اعلی افسروں سے بھی بات چیت ہوئی ہے، یہ ملاقات ایک ہوٹل میں ہوئی تھی۔ امریکی فوج کے افسر نے ہم سے پوچھا کہ آپ لوگ ہم امریکیوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں تو اس بزرگ نے بھرپور اعتماد اور اطمینان سے جواب دیا تھا کہ تم لوگ ہمارے گھروں کے دروازے توڑتے ہو، ہمارے گھروں میں گھس آتے ہو، ہمارے بچوں کو لاتوں اور گھونسوں سے مارتے ہو، ہماری عورتوں کو بالوں سے گھسیٹتے ہو، ہمارے جوانوں کو بے وجہ قتل کرتے ہو، ہمیں یہ سب اچھا نہیں لگتا اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم بھی تمہارے دانت توڑیں گے،اور جب تمہارے دانت ٹوٹ جائیں گے تو تم بھی ان (روسیوں) کی طرح بھاگ جاؤ گے اور اس میں اب زیادہ وقت نہیں ہے، جب تم لوگ بھاگو گے۔

تب جو افسر مذاکرات کے لیے آ یا ہوا تھا اس نے اپنے ایک ساتھی کی طرف دیکھااور کہا اس بڑے میاں کا یہ حال ہے تو نوجوانوں کا کیا حال ہو گا؟؟

ڈیل رمپل نے اس بوڑھے سے پوچھا کہ کیا آپ طالبان سے بھی اس لڑائی میں مدد لیتے ہیں؟؟ تو بوڑھا افغان گویا ہوا اس میں مدد کی کیا بات ہے؟؟ سورج ڈھلنے کے بعد یہاں راج کس کا ہوتا ہے؟؟ طالبان کا ہی ہوتا ہے تو اس میں دو رائے نہیں۔

یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ آج بھی افغانستان کے ستر فیصد سے زائد علاقہ پر طالبان کی ہی حکومت ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ بزرگ سچ بول رہا ہے۔ طالبان آج کابل میں بھی موجود ہیں اور میرے خیال کے مطابق وہ اپنی طاقت کابل میں جمع کر رہے ہیں۔اگر طالبان کابل میں اپنی مناسب طاقت مجتمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے کابل پر قبضہ کرنا کوئی زیادہ دشوار نہیں ہو گا۔

ڈیل رمپلنے اس صورت حال میں پاکستان اور بھارت کی پوزیشن پر بھی تبصرہ کیا ہے ،جس میں اس نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے طالبان سے بہتر کوئی ہمسائیہ نہیں ہو سکتا اور طالبان کے علاوہ کوئی بھی حکومت کسی بھی وقت بھارت کو افغانستان کے راست پاکستان پر حملے کی اجازت دے سکتی ہے،اس لیے پاکستان ہر صورت طالبان کا ساتھ دے گا۔

چونکہ افغانستا ن پر روسی حملے کے وقت پاکستان نے لاکھوں افغانیوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے تھے اس لیے طالبان اس کو پاکستان کا بہت بڑا احسان مانتے ہیں اور افغان خون میں احسان فراموشی کا عنصر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو بھارت طالبان کو اسلامی انتہا پسندی کی علامت سمجھتا ہے ،بھارت کو یہ بھی ڈر ہے کہ اگر امریکہ افغانستان سے جاتا ہے تو افغان مجاہدین کشمیر میں لگی آگ میں ایندھن کا کام کر سکتے ہیں۔ اس لیے بھارت ہر صورت میں کوشش میں ہے کہ امریکہ ابھی افغانستان میں موجود رہے۔

احمد شاہ مسعود کی ہلاکت کے بعد ابھی تک اس میعار کا اتحادی بھارت کو میسر نہیں آسکا۔ ہندوستان نے ایک بنیادی غلطی یہ بھی کی تھی کہ جب روس نے افغانستان پر یلغار کی تھی تو اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنے ایک انٹرویو میں ایک تو روسی جارحیت کی مذمت نہیں کی تھی دوسرا اس نے کہاتھا کہ روسی افواج افغانستان میں سوشلزم کو بچانے آئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ افغانی آج تک یہ بات نہیں بھولے ہوں گے۔افغانی کوئی بات نہیں بھولتے یہ ان کے کردار کا حصہ ہے۔

اس ساری صورتحال میں پاکستان کا پلڑا سب سے بھاری ہے،افغانستان میں آج بھارتی سفارتی عملہ کی تعداد میں کافی کمی کی گئی ہے اور اس کمی میں امریکی اور افغانی صدور کا عمل دخل ہے اور آج کی صورتحال یہ ہے کہ افغان صدر طالبان کی رضا حاصل کرنے کے لیے پاکستان سے قربت بڑھا رہے ہیں۔

حالانکہ ماضی میں حامد کرزائی جتنے اینٹی پاکستان تھے اتنے ہی پرو ہندوستان تھے۔ اس کی وجہ ان کا بھارت میں تعلیم حاصل کرنا بھی تھا مگر اب فضاء بدلی ہوئی محسوس ہو رہی ہے ۔کرزائی کی مجبوری نے انہیں پاکستان کے قریب تر کر دیا ہے۔دوسری طرف بھی آگ ہے برابر لگی ہوئی کے موافق پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کابل کے چکر لگانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

آج بھی جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف افغانستان کے دورے پر ہیں۔حامد کرزائی نے وزیراعظم گیلانی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی سے بات چیت کی ہے جس میں مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور ایک مفاہمتی کمیشن بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

شاید اب کرزائی کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ پاکستان کے سوا افغان مسئلے کا حل کسی کے پاس نہیں ہے اسی لیے کرزائی نے اپنے سکیورٹی چیف امر صالح جو بھارت نواز سمجھے جاتے تھے کو بر طرف کر دیا ہے، صالح کو احمد شاہ مسعود کا دستِ راست سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اس کے بدے میں حامد کرزائی کے طالبان اور سراج الدین حقانی کے ساتھ معاہدے کروا رہا ہے تاکہ افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہو سکے اور برسوں سے دست و گریبان افغانی یکجان ہو جائیں۔

لیکن میری نظر میں یہ سب امریکہ کی ایما پر ہو رہا ہے تاکہ امریکہ افغانستان سے ویسے ہی رخصت ہو سکے جیسے انیسویں صدی میں برطانیہ اور بیسویں صدی میں روس کی رخصتی ہوئی ،افغانستان سچ میں سامراجوں کا قبرستان ہے اسی لیے تاریخ اپنے آپ کوایک بار پھر دوہرا رہی ہے۔

تبصرے

مشہور اشاعتیں