نئی نوٹنکی
اب سے بتیس سال پہلے کی بات ہے پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ان حالات میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا کہ مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا ایک جج بیمار ہو کر اپنی جان چھڑاتا ہے تو ایک پر پہلے سے ہی میٹرک کی سند جعلی رکھنے کا الزام لگا ہے اور وہ بھی اپنی عافیت ملک سے فرار میں ہی جانتا ہے اور راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے مقدمے کے بیچ وبیچ ملک چھوڑ جاتا ہے۔باقی جو 7 جج سپریم کورٹ کے لارجر بنچ میں بچے ان میں سے بھی تین نے تاریخ کے سب سے بڑے مجرم کو شک کا فائدہ دے کر باعزت بری کر دیا اور باقی کے چار نے سزائے موت کی تصدیق کر دی۔
عام حالات میں پاکستان میں سزائے موت کے ملزم کو عدالت سے سزا پانے کے بعد اس کی اپیل برسوں تک صدر مملکت کے پاس پینڈنگ پڑی رہتی ہے تاکہ اگر فریقین میں صلح ہو جائے تو ایک انسان کی زندگی بچ سکے۔ مگر ملزم بڑا ہاتھ لگا تھا، یہ نہیں کہ کسی نے بھٹو کی سزا کے خلاف کوئی رٹ دائر نہیں کی تھی یہ بھی نہیں کہ کسی نے عدالت کو اس پر نظر ثانی کا نا کہا ہو مگر میں نے بتایا کہ ملزم بڑا ہاتھ لگ گیا تھا اس لیے اس کو جلد سے جلد تختہ دار پر چڑھانا اس وقت کی حکومت کا نصب العین ٹھہرا اور اس پر محض کچھ ہی دنوں میں بقول اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا گیا۔
ساری دنیا خاص کر مسلمان دنیا نے جنرل ضیاء الحق کی منت سماجت کی چینی قیادت نے بھٹو کو پھانسی دینے سے روکنے کی بے پناہ کوششیں کی ، سعودی قیادت نے کوششیں کی، لیبیا کے صدر کرنل قذافی بھی بھٹو کی پھانسی رکوانے میں پیش پیش تھے مگر جنرل ضیاء الحق نے کسی کی نا سنی اور عالمِ اسلام کے سب سے بڑے لیڈر کو امریکی ایما پر تختہ دار پر لٹکا کر ہی دم لیا اور خود پاکستان کا کرتا دھرتا بن بیٹھا۔
نا تو کسی نے عالمی مسلمان لیڈروں کی اپیلوں پر ہی کان دھرے اور نا ہی کسی نے پاکستان میں دائر مختلف اپیلوں کو ہی نظر میں لانے کی کوشش کی اور پاکستان کو ایک عالمی لیڈر سے محروم کر دیا گیا۔
بھٹو کی پھانسی کے چند برس بعد جب پھانسی کی سزاء کی توثیق کرنے والے سپریم کورٹ بینچ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے اعتراف کیا کہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دباؤ کے تحت کیا گیا تھا تو اس کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی عدالت یعنی کہ سپریم کورٹ کو از خد نوٹس لیتے ہوئے اس مقدمہ کو دوبارہ کھولنا چاہیے تھا تاکہ ناانصافی کا جو دھبہ سپریم کورٹ کے ماتھے پر چمکا تھا اس کو اسی وقت دھو دیا جاتا،لیکن اعلٰی عدالت تو کجا تاریخ کے اس بڑے مجرم کی پارٹی کو بھی بتیس سال تک ریویو پٹیشن دائر کرنے کا حوصلہ نا ہوا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں فرانس اور برطانیہ کی طرح اعلٰی عدلیہ کے سابقہ فیصلے پر نظر ثانی کا کوئی قانون ہے؟؟ تو اس پر پاکستان کے قانون دان کہتے ہیں اس کیس کو ری اوپن کرنے کے لیے عدالیہ کو قانون سازی کرنا پڑے گی ورنہ پاکستان کی اعلٰی عدلیہ کے لیے بھٹو کیس ری اوپن کرنا خاصہ دشوار ہو سکتا ہے۔
ہمارہ پیارا ملک پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں انویسٹی گیشن سے لے کے سماعت کے مراحل تک کرپشن اور نا اہلی کا پورا جال بچھا پڑا ہے۔ جہاں ایک یہی فیصلہ ہی مشکوک نہیں ہے ہزاروں فیصلے اسی طرح سے مشکوک ہیں۔اب اگر پاکستان میں نئے ثبوتوں کی بنیاد پرکیس پر نظر ثانی کا کوئی قانون بنا دیا جاتا ہے تو اس سے بہت سوں کا بھلا ہو سکتا ہے اور ایسا قانون کئی ضمیروں پر سے پتھر ہٹانے کا کام بھی کر سکتا ہے اور پاکستان کی تاریخ کے کئی ایسے ہائی پروفائل کیس اور واقعات ہیں جو پاکستان کی اعلٰی عدلیہ کے از خود نوٹس یا ریویو کے منتظر پڑے ہیں۔
جیسے کہ یحیٰی خان کو مارشل لاء لگانے پر غاصب قرار دیا گیا، تو سوال پیدا ہوا کہ کیا جنرل پرویز مشرف، جنرل ضیاء الحق اور ایوب خان بھی غاصب تھے؟؟؟یا نہیں؟ جنہوں نے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں براہ راست عسکری یا سیاسی کردار ادا کیا، آیا وہ غداری کے مقدمے تلے آتے ہیں یا نہیں؟؟ آیا ان پر غداری کا قانون لاگو ہو سکےگا؟؟ جنہوں نے مشرقی پاکستان میں غیر مسلح اور عام آبادی کے خلاف جرائم کیے، کیا وہ انسانیت اور پاکستانیت کے خلاف جرائم نہیں تھے۔
کیا آج جو بلوچستان میں لاشیں مل رہی ہیں،جو بلوچی غائب ہو رہے ہیں، بلوچستان میں جو خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، بلوچوں کی نسل کشی کے ذریعے بلوچوں کو پاکستان کے مخالف بنایا جا رہا ہے، کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ میں جو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، جو عام پاکستانی دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں، کیا ان کی ذمہ داری کسی ادارے، کسی گروہ یا فرد پر عائد کرنے کے لیے کسی عدالت کو از خود نوٹس لینا چاہیے یا نہیں؟؟کیا عدالت کے رو برو غلط بیانی کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ متصور کرتے ہوئے کسی پاٹے خاں کو اعلیٰ عدلیہ سزا کا حقدار بنا پائے گی یا نہیں؟؟ ان سلسلوں میں پہلے سے دائر درخواستوں پر اعلیٰ عدالیہ کی جانب سے جلد پیش رفت ضروری اور ممکن ہے بھی کہ نہیں؟؟ کیا آج بھی برسوں پہلے کی دائر ہائی پروفائل واقعات اور سیاسی و عسکری اداروں کی حدود کے بارے میں پٹیشنز کو اعلیٰ عدالیہ اپنے سرد خانے سے نکال کر نبٹا سکتی ہے ؟؟ تو میرا خیال ہے کہ ایسا کرنا کسی کے بس میں نہیں، تو اب سوال یہ کھڑا ہوا کہ آخر کار پی پی پی حکومت کو اب بتیس سال بعد اچانک یہ کیس کیوں یاد آگیا تو میرا کہنا یہ ہے کہ یہ سن ڈرامہ بازی عوام کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی کا ایک بہانہ ہے۔
حکومت کو اپنے پانچ سال جیسے تیسے پورا کرنا ہیں اس لیے کبھی ایک نوٹنکی کی جاتی ہے تو کبھی دوسری، کبھی پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر اس میں کمی کی جاتی ہے پھر کبھی آر جی ایس ٹی کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے اور کبھی فلڈ سرچارج لگا دیا جاتا ہے، اسی طرح ہی اگر پانچ سال نبھانے ہیں تو نبھاتے رہتے گڑے مردے اکھاڑنے سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا۔
کیا یہ کیس ری اوپن ہونے سے مہنگائی میں کمی ہو جائے گی؟؟ کیا یہ کیس ری اوپن ہونے سے عوام کو سستی تعلیم مل پائے گی؟؟کیا بھٹو کیس سے بھٹو کے خواب پورے ہو جائیں گے؟؟ کیا آج بتیس سال بعد عدالیہ اپنے ماتھے سے یہ نشان ہٹا کر غریب عوام سستا اور فوری کو انصاف فراہم کرنے لگے گی؟؟ کیا بھٹو کیس ری اوپن ہونے سے ملک سے لوڈشیڈنگ کا عذاب ختم ہو جائےگا؟؟
کیا باقی لا تعداد مسائل جن کو لکھنا شروع کروں تو شائد مہینوں لگ جائیں اگر تو اس ملک سے ختم ہو سکتے ہیں تو اس کیس کو شوق سے کھولیں اور پوری آب و تاب سے اس کا دوبارہ فیصلہ لیں اور اگر اس سے پاکستان کو درپیش مسائل کا حل نہیں ہو سکتا تو اٹھارہ کروڑ لوگوں کو ایک اور نئی نوٹنکی دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟؟جو پہلے ہی اپنی روٹی پوری کرنے کے لیے مری جا رہی ہے۔
عام حالات میں پاکستان میں سزائے موت کے ملزم کو عدالت سے سزا پانے کے بعد اس کی اپیل برسوں تک صدر مملکت کے پاس پینڈنگ پڑی رہتی ہے تاکہ اگر فریقین میں صلح ہو جائے تو ایک انسان کی زندگی بچ سکے۔ مگر ملزم بڑا ہاتھ لگا تھا، یہ نہیں کہ کسی نے بھٹو کی سزا کے خلاف کوئی رٹ دائر نہیں کی تھی یہ بھی نہیں کہ کسی نے عدالت کو اس پر نظر ثانی کا نا کہا ہو مگر میں نے بتایا کہ ملزم بڑا ہاتھ لگ گیا تھا اس لیے اس کو جلد سے جلد تختہ دار پر چڑھانا اس وقت کی حکومت کا نصب العین ٹھہرا اور اس پر محض کچھ ہی دنوں میں بقول اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا گیا۔
ساری دنیا خاص کر مسلمان دنیا نے جنرل ضیاء الحق کی منت سماجت کی چینی قیادت نے بھٹو کو پھانسی دینے سے روکنے کی بے پناہ کوششیں کی ، سعودی قیادت نے کوششیں کی، لیبیا کے صدر کرنل قذافی بھی بھٹو کی پھانسی رکوانے میں پیش پیش تھے مگر جنرل ضیاء الحق نے کسی کی نا سنی اور عالمِ اسلام کے سب سے بڑے لیڈر کو امریکی ایما پر تختہ دار پر لٹکا کر ہی دم لیا اور خود پاکستان کا کرتا دھرتا بن بیٹھا۔
نا تو کسی نے عالمی مسلمان لیڈروں کی اپیلوں پر ہی کان دھرے اور نا ہی کسی نے پاکستان میں دائر مختلف اپیلوں کو ہی نظر میں لانے کی کوشش کی اور پاکستان کو ایک عالمی لیڈر سے محروم کر دیا گیا۔
بھٹو کی پھانسی کے چند برس بعد جب پھانسی کی سزاء کی توثیق کرنے والے سپریم کورٹ بینچ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے اعتراف کیا کہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دباؤ کے تحت کیا گیا تھا تو اس کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی عدالت یعنی کہ سپریم کورٹ کو از خد نوٹس لیتے ہوئے اس مقدمہ کو دوبارہ کھولنا چاہیے تھا تاکہ ناانصافی کا جو دھبہ سپریم کورٹ کے ماتھے پر چمکا تھا اس کو اسی وقت دھو دیا جاتا،لیکن اعلٰی عدالت تو کجا تاریخ کے اس بڑے مجرم کی پارٹی کو بھی بتیس سال تک ریویو پٹیشن دائر کرنے کا حوصلہ نا ہوا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں فرانس اور برطانیہ کی طرح اعلٰی عدلیہ کے سابقہ فیصلے پر نظر ثانی کا کوئی قانون ہے؟؟ تو اس پر پاکستان کے قانون دان کہتے ہیں اس کیس کو ری اوپن کرنے کے لیے عدالیہ کو قانون سازی کرنا پڑے گی ورنہ پاکستان کی اعلٰی عدلیہ کے لیے بھٹو کیس ری اوپن کرنا خاصہ دشوار ہو سکتا ہے۔
ہمارہ پیارا ملک پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں انویسٹی گیشن سے لے کے سماعت کے مراحل تک کرپشن اور نا اہلی کا پورا جال بچھا پڑا ہے۔ جہاں ایک یہی فیصلہ ہی مشکوک نہیں ہے ہزاروں فیصلے اسی طرح سے مشکوک ہیں۔اب اگر پاکستان میں نئے ثبوتوں کی بنیاد پرکیس پر نظر ثانی کا کوئی قانون بنا دیا جاتا ہے تو اس سے بہت سوں کا بھلا ہو سکتا ہے اور ایسا قانون کئی ضمیروں پر سے پتھر ہٹانے کا کام بھی کر سکتا ہے اور پاکستان کی تاریخ کے کئی ایسے ہائی پروفائل کیس اور واقعات ہیں جو پاکستان کی اعلٰی عدلیہ کے از خود نوٹس یا ریویو کے منتظر پڑے ہیں۔
جیسے کہ یحیٰی خان کو مارشل لاء لگانے پر غاصب قرار دیا گیا، تو سوال پیدا ہوا کہ کیا جنرل پرویز مشرف، جنرل ضیاء الحق اور ایوب خان بھی غاصب تھے؟؟؟یا نہیں؟ جنہوں نے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں براہ راست عسکری یا سیاسی کردار ادا کیا، آیا وہ غداری کے مقدمے تلے آتے ہیں یا نہیں؟؟ آیا ان پر غداری کا قانون لاگو ہو سکےگا؟؟ جنہوں نے مشرقی پاکستان میں غیر مسلح اور عام آبادی کے خلاف جرائم کیے، کیا وہ انسانیت اور پاکستانیت کے خلاف جرائم نہیں تھے۔
کیا آج جو بلوچستان میں لاشیں مل رہی ہیں،جو بلوچی غائب ہو رہے ہیں، بلوچستان میں جو خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، بلوچوں کی نسل کشی کے ذریعے بلوچوں کو پاکستان کے مخالف بنایا جا رہا ہے، کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ میں جو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، جو عام پاکستانی دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں، کیا ان کی ذمہ داری کسی ادارے، کسی گروہ یا فرد پر عائد کرنے کے لیے کسی عدالت کو از خود نوٹس لینا چاہیے یا نہیں؟؟کیا عدالت کے رو برو غلط بیانی کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ متصور کرتے ہوئے کسی پاٹے خاں کو اعلیٰ عدلیہ سزا کا حقدار بنا پائے گی یا نہیں؟؟ ان سلسلوں میں پہلے سے دائر درخواستوں پر اعلیٰ عدالیہ کی جانب سے جلد پیش رفت ضروری اور ممکن ہے بھی کہ نہیں؟؟ کیا آج بھی برسوں پہلے کی دائر ہائی پروفائل واقعات اور سیاسی و عسکری اداروں کی حدود کے بارے میں پٹیشنز کو اعلیٰ عدالیہ اپنے سرد خانے سے نکال کر نبٹا سکتی ہے ؟؟ تو میرا خیال ہے کہ ایسا کرنا کسی کے بس میں نہیں، تو اب سوال یہ کھڑا ہوا کہ آخر کار پی پی پی حکومت کو اب بتیس سال بعد اچانک یہ کیس کیوں یاد آگیا تو میرا کہنا یہ ہے کہ یہ سن ڈرامہ بازی عوام کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی کا ایک بہانہ ہے۔
حکومت کو اپنے پانچ سال جیسے تیسے پورا کرنا ہیں اس لیے کبھی ایک نوٹنکی کی جاتی ہے تو کبھی دوسری، کبھی پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر اس میں کمی کی جاتی ہے پھر کبھی آر جی ایس ٹی کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے اور کبھی فلڈ سرچارج لگا دیا جاتا ہے، اسی طرح ہی اگر پانچ سال نبھانے ہیں تو نبھاتے رہتے گڑے مردے اکھاڑنے سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا۔
کیا یہ کیس ری اوپن ہونے سے مہنگائی میں کمی ہو جائے گی؟؟ کیا یہ کیس ری اوپن ہونے سے عوام کو سستی تعلیم مل پائے گی؟؟کیا بھٹو کیس سے بھٹو کے خواب پورے ہو جائیں گے؟؟ کیا آج بتیس سال بعد عدالیہ اپنے ماتھے سے یہ نشان ہٹا کر غریب عوام سستا اور فوری کو انصاف فراہم کرنے لگے گی؟؟ کیا بھٹو کیس ری اوپن ہونے سے ملک سے لوڈشیڈنگ کا عذاب ختم ہو جائےگا؟؟
کیا باقی لا تعداد مسائل جن کو لکھنا شروع کروں تو شائد مہینوں لگ جائیں اگر تو اس ملک سے ختم ہو سکتے ہیں تو اس کیس کو شوق سے کھولیں اور پوری آب و تاب سے اس کا دوبارہ فیصلہ لیں اور اگر اس سے پاکستان کو درپیش مسائل کا حل نہیں ہو سکتا تو اٹھارہ کروڑ لوگوں کو ایک اور نئی نوٹنکی دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟؟جو پہلے ہی اپنی روٹی پوری کرنے کے لیے مری جا رہی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں