تیسرا شکار

امریکہ اور اس کے حواری ممالک برطانیہ اور فرانس نے بالآخر لیبیا پر فضائی حملے شروع کر دیے ہیں اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں 100 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ فرانس کے جنگی طیاروں نے لیبیا کی حکومتی اقامت گاہوں پر بمباری کی ہے۔ ان میں لیبیا کے صدر کرنل قذافی کے محل سمیت دوسری اہم جگہوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

امریکی باندی اقوامِ متحدہ نے جوں ہی لیبیا میں نو فلائی زون قرار دیا امریکی اور فرانسیسی مزائیل اور جہازوں کا رخ لیبیا کی جانب ہو گیا۔ اس کی جو وجہ بیان کی گئی وہ لیبیائی فوج کی عوام کے خلاف کاروائی کو روکنے کے لیے بتائی جا رہی ہے۔

قارئین آپ کو یہ تو یاد ہی ہوگا کہ اقوامِ متحدہ سے کشمیر کے بارے میں بھی ایسی کئی قراردادیں پاس ہو چکی ہیں مگر امریکہ، فرانس یا برطانیہ کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ بھارت پر ایسے ہی حملے کیے جائیں جہاں پچھلے ساٹھ سال سے بھارتی افواج کشمیری مسلمان اعوام کا قتلِ عام کرنے میں مصروف نظر آتی ہے۔امریکہ اور اس کے حواریوں کی یہ کاروائی یقینََا یک طرفہ ہو گی۔کیونکہ ان طاقتوں سے لیبیا کا مقابلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔لیبیا میں اتنی صلاحتیں موجود نہیں کہ وہ ان طاقتور اور ظالم و جابر ممالک کا مقابلہ کر سکے۔

امریکی رکھیل اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے لیبیا کے خلاف فوجی کاروائی کی اجازت اور نو فلائی زون کے نفاذ کے بعد لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی نے یکطرفہ طور پر باغیوں کے خلاف جاری کاروائیاں روک دینے کا اعلان کیا لیکن اچانک ہی اگلے دن باغیوں کے کنٹرول والے شہر بن غازی میں لیبیا ئی فوج کی جانب سے کاروائی کا الزام سامنے آیا بالکل ایسے ہی جیسے عراق میں کیمیائی ہتھیار نظر آ گئے تھے۔

جس وقت امریکی اور اس کے حواری ممالک نے لیبیا پر فضائی حملے کیے اس قوت تک تو اس الزام کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ۔ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ بن غازی پر حملہ کرنے والے جہاز حقیقت میں لیبیا کی فوج کے تھے یا امریکی اور اتحادی افواج نے حملوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے خود ہی یہ ڈرامہ کیا ہے۔تاکہ ان حلوں کا جواز بنا کر ایک اور اسلامی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔

جو بھی ہے آخر کا لیبیا ایک مسلمان ملک ہے میرے خیال میں تمام اسلامی ممالک کو اس پر شدید ردِ عمل ہونا چاہیے تھا مگر بے ضمیر مسلمان حکمرانوں سے تو لادین روس اور بدھ مت چین والے ہی با ضمیر بن کر اس کی مذمت بھی کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان حملوں کو فل فور بند کرنے کا بھی کہا جا رہا ہے۔

حملے سے چند گھنٹے پہلے فرانس کے شہر پیرس میں امریکہ اور اس کے پِلوں کا ایک اجلاس ہوا اور اس اجلاس کے بعد ایک اور اسلامی ملک کو ان خونخوار ملکوں نے اپنے نشانے پر رکھ کر راکھ کا ڈھیر بنانے کی کوششیں شروع کر دیں ہیں اور اسلامی ممالک کی بے حسی اور بے ضمیری بھی قابلِ دید ہے کسی ایک ملک نے بھی اس ناحق حملے کی مذمت نہیں کی بلکہ خاموش تماشائی بن کر ایک اور مسلم ملک کی درگت بنتی دیکھ رہے ہیں۔

دوسری طرف لیبیا نے بھی ان حملوں کے بعد سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی عوام کو ان حملوں کے خلاف مسلح کر رہا ہے۔ لیبیا میں دخلی صورت حال جو بھی ہو وہ دنیا کے سامنے ہے وہاں حکومت کے خلاف جمہوریت کے حامی سراپا احتجاج ہیں اور حکومت کی تبدیلی اور ملک میں جمہوریت کا نفاذ چاہتے ہیں۔

کرنل قذافی کی حکومت اور فوج کی جانب سے ان احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا گیا اور احتجاج کرنے والوں کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی گئی ،لیکن یہ سب لیبیا کا اندرونی معاملہ تھا۔لیبیائی عوام کی مناسب سلامتی اور تحفظ کی بابت مناسب اقدامات کو یقینی بنایا جانا چاہیے تھا مگر امریکہ اور حواری لیبیا پر کیل کانٹے سے لیس ہو کر چڑ دوڑے ہیں۔

لیبیائی عوام کی کی سلامتی محض چند مخصوص ممالک کی ذمہ داری نہیں ہے اس میں ساری عالمی برادری کو شامل ہو کر اس کا کوئی پر امن حل نکالنا چاہیے تھا۔ان تمام حقائق سے قطع نظر لیبیا پر امریکی حملہ کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ امریکہ اور اس کی اتحادی طاقتوں کا تیسرا مسلمان ملک شکار ہوا ہے۔جو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جارحیت کا منہ بولتا ثبو ت ہے۔

پہلے افغانستان کو اتحادیوں نے اپنی درنگی کا نشان بنایا اس کے بعد عراق میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور اب باری لیبیا کے عوام کی آ گئی ہے جو ساری امن پسند دنیا کے منہ پر تماچہ ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ کاروائی اس صدر کے دور میں کی جا رہی ہے جو امن کا نوبل پرائز کا حق دار ٹھہرایا گیا۔اس کے بعد ابامہ (یعنی کہ دنیا کا ماما) مسلمان دنیا سے محبت کے دعوے دار بھی ہیں اس حملے سے ان کی مسلمان دوستی ساری دنیا کے سامنے عیاں ہو گئی ہے۔

وہ خود کو ایک مسلمان باپ کی اولاد گردانتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ہی دہشت گردی کی نام نہاد جنگ سے لیکر اب لیبیا تک تما مسلمان دنیا امریکہ کے زیرِ عتاب ہے۔کیا ایسا شخص کسی صورت بھی امن کا نوبل انعام لینے کے قابل ہو سکتا ہے؟؟ تو یقینََا اس کا جواب نفی میں ہی ہو گا۔

بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر رہا ہے بھارت درندے مسلمان لڑکیوں کی ابروریزی کرتے ہیں انہیں قتل کرتے ہیں وہاں امریکہ اور اس کے اتحادی اندھے ہیں کشمیری نوجوانوں کو چن چن کر عقوبت خانوں اور زندانوں میں زندہ درگور کر دیا جاتا ہے وہ اقوامِ متحدہ کو نظر نہیں آتا بھارت میں موجود نکسل آبادی کو ختم کیا جا رہا ہے نکسل باڑیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جلا دیا جاتا ہے اس پر اقوامِ متحدہ کی زبان کو تالہ لگ جاتا ہے۔ بھارت میں ہی تامل عوام بھارتی سکیورٹی فورسز کے ظلم کا نشانہ بن رہی ہیں لیکن اقوامِ متحدہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بھارت میں ہی گجرات میں بھارتی جنونی مسلمانوں کو زندہ آگ میں جلا دیں ان کے اثاثوں کو جلا دیں تو بھی اقوامِ متحدہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔

اسرائیل فلسطینی عوام کا خون بہانے میں مصروف عمل رہے فلسطینی عوام کی نسل کشی کی جائے تو اقوامِ متحدہ کو دنیا کا امن و مان برباد ہوتا محسوس نہیں ہوتا۔فلسطینی عوام کی خوراک تک روک دی جائے ان کو ادویات تک حاصل کرنے سے روک دیا جائے فلسطینی عوام کی ناکہ بندی کر دی جائے لیکن یہ نا تو اقوامِ متحدہ کو ہی نظر آتا ہے اور ناہی امریکی اندھوں کو ۔

امریکی اور اتحادی خفیہ ایجنسیاں خود ہی ملکوں ملکوں فساد پھیلا کر عوام کو سڑکوں پر لا کر اپنی مرضی کی قراردادیں اقوامِ متحدہ سے پاس کروا کر خود ہی مسلمان ملکوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز کیے ہوئے ہیں جو مسلمان ملکوں کے بہرے ،اندھے اور گونگے حکمرانوں کی بے حسی اور بے بسی نشان پیش کر رہی ہیں۔

عرب عوام کو احتجاج پر اکسا کر عرب ملکوں پر امریکی قبضہ کی راہ ہموار کی جا رہی ہے ۔امریکہ تیل اور دولت کی خواہش میں اندھا ہوا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آئے روزمسلمان ملکوں پر حملے کرنا اور ان پر قابض ہونا اس کا جنون بنتا جا رہا ہے۔ اکثر عرب ممالک میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں آج لیبیا کو نشانہ بنایا گیا ہے کل کلاں یمن اور بحرین کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے تاکہ ایران اور پاکستان کے خلاف گھیرا مذید تنگ کر کے ان ملکوں پر بھی قابض ہونے کی کوشش کی جائے۔

یمن اور بحرین کے بعد احتجاج قطر اور عرب امارات میں شروع ہو سکتا ہے اور اس احتجاج کی آڑ میں امریکہ سارے عرب کو میدانِ جنگ بنانا چاہتا ہے۔اگر آج عالم اسلام خاموش رہتا ہے تو اس سے نقصان اور تباہی عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کے مقدر میں لکھی جائے گی۔

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پے تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے!!

آج مسلمان حکمرانوں کا جن پر تکیہ ہے آئندہ وقت میں یہی ان کے اختتام کا باعث بنیں گے جیسا کہ عراقی صدر صدام حسین اور ایرانی شاہ کا اختتام ہوا تھا ۔اور اس وقت ان کو اتنی جگہ بھی میسر نہیں ہو گی کہ یہ اپنے ملک میں دفن ہی ہو سکیں۔ایک ایک کر کے مرنے سے بہتر ہے سب اکھٹے مر جاؤتاکہ بھرم تو رہ جائے۔ابھی بھی وقت ہے کہ ایک مضبوط اور طاقتور اسلامی بلاک بنایا جائے جو ایسی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے قابل ہو۔



تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

مشہور اشاعتیں