پاک انڈیا کرکٹ ڈپلومیسی

ایں خیال است و محال است و جنوں
  تحریر ڈاکٹر عرفان عمر   

برصغیر میں پاک انڈیا کرکٹ ڈپلومیسی کوئی نئی چیز نہیں ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ایسی کوششوں کا کچھ فائدہ بھی ہو۔ پاکستان کرکٹ ٹیم بھارت کے شہر مہالی میں ایسی ہاری کہ شائد کئی پاکستانیوں کو آج بھی یقین نہیں ہو رہا کہ واقع ہی پاکستان ہار گیا ہے۔ پوری قوم جو کرکٹ کے بخار بلکہ کرکٹ کے تیریا میں مبتلا تھی سب بھنگ ہو گئی۔

پوری قوم اس بار خان صاحب یعنی کہ آفریدی بھائی سے ورلڈ کپ کی توقع لگائے بیٹھی تھی مگر ’’اے بسا آرزو کہ خاک شد‘‘ والا معاملہ پیش آ گیا اور خالی ہاتھ ہی آنا پڑا یا لایا گیا۔ پاکستانی کھلاڑی جن کو شاہین کہا گیا پاکستانی شیر کہا گیا اور تو اور چیتے تک بنا دیا گیا۔

ایسے خوف کا شکار ہوئے کہ ٹنڈولکر کے چار کیچز چھوڑے گئے پھر اس کا ایک اسٹمپ چھوڑ دیا آخر کار اعصابی جنگ میں مبتلا کھلاڑیوں نے وہ گل کھلائے کہ خدا کی پناہ۔ فیلڈنگ کا بیڑا غرق، بولنگ میں عمر گل نے شاندار مار کھائی تو بیٹگ میں پوری ٹیم نے ہی عالیشان کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے پروٹوکول سے میچ بھارت کو جتوا دیا اور ساری پاکستانی قوم جو ایک ایک خوشی کو ترس گئی ہے ایک اور خوشی کا موقع ضائع ہونے پر خاموشی سے بستروں میں دبک کر سو گئی۔

گھروں کا سماں یہ تھا کہ گھر والیاں، مائیں، بہنیں اور بیٹیاں مصلہ سنبھال کر بیٹھی تھیں تو میچ دیکھنے والے ایک دوسرے کو ایس ایم ایس کے ذریعے مختلف وظائف بتا بھی رہے تھے اور پڑھ بھی رہے تھے۔ شائد ہی دنیا میں کسی بھی انسان کے لیے اتنا پڑھا گیا ہو جتنا اس دن پاکستان ٹیم کے لیے پڑھا گیا۔مگر پڑہائی بچاری کیا کرتی جب ٹیم پر سایہ حکمراناں پڑ گیا تو یہی کچھ ہو سکتا تھا۔

ہاں اس سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ پاکستانی قوم ایک رنگ میں رنگی ہوئی نظر آئی کسی نے نہیں کہا کہ میں سندھی ہوں، میں پنجابی ہوں، میں بلوچی ہوں یا میں پٹھان ہوں سب پاکستانی بن کر کرکٹ کے عالمی میلے میں پاکستان کی سپورٹ کرتے رہے۔ اگر یہی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ ہم پاکستان سے غربت کے خاتمہ، پاکستان میں بڑھتے ظلم و استبداد کو روکنے کے لیے اور عالمِ اسلام کے خلاف عالمی استعمار کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے کے خلاف کرتے تو ہم آج دنیا میں ایک عظیم قوم بن کر جی رہے ہوتے آج ہم پر یہ کسمپرسی طاری نا ہوتی۔

آج ہمارہ ہاتھ استعمار کے آگے نا پھیلاہوتابلکہ ہم خود دنیا کو دینے والے ہوتے۔ پاکستان کی شہہ رگ جنت نظیر کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہوتا۔ جس پر بھارتی بنیہ قابض ہے، پانی کے تمام راستے بند کیے جارے ہیں تاکہ پاکستان کو بنجر کر دیا جائے۔اور ہمارے حکمرانوں نے کشمیر کے مسئلے کو ثانوی حثییت کا مسئلہ بنا کر رکھ دیا ہے۔جونا گڑھ پر تو مٹی ہی ڈال دی گئی ہے۔ اب کشمیر کو بھی دبانے کی کوشش کی جاری ہے۔

بھارتی حکومت ایک طرف تو پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے اور دوسری طرف پاکستانیوں کو دہشت گرد بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔اور اب کرکٹ ڈپلومیسی کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔

ہر دشمن کی مثال اکاس بیل کی مانند ہوتی ہے جس کو اگر روکا نا جائے تو وہ پھیلتی ہی چلی جاتی ہے، ہمیں ان تمام ممالک کو دشمن تصور کرنا ہوگا جو دوستی کے نام پر پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں دشمن سے دشمن کی طرح بات کرنا ہوگی نا کہ ایک خیر خواہ کے طور کیونکہ دشمن ہمیشہ دشمن ہی رہا کرتا ہے جب تک دل سے دوست نا بن جائے۔

ہمیں بھی بھارت سمیت امریکہ اور یورپی ملکوں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے دہشت گردی کے اسباب و عوامل پر کھلی بات چیت کرنی چاہیے۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کسی سے ڈھکی چھی نہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دونوں ملک پاکستان اور بھارت کشمیر سمیت بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں بھارتی در اندازی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی کارستانیوں پر کھلے ذہن سے بات چیت کر سکتے ہیں؟

کیا ایسے گھمبیر مسائل کرکٹ ڈپلومیسی سے حل ہو سکتے ہیں؟ کیا پہلے ادوار میں کرکٹ ڈپلومیسی کامیاب ہوئی؟ تو میرا خیال ہے ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘اگرچہ دونوں ملکوں کا میڈیا خواہ وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک پردونوں طرف کے کچھ خوش فہم قسم کے دانشور اس رائی سے پہاڑ بنانے میں جتے ہوئے ہیں۔ جو اپنے آپ کو روشن خیال اور دوسروں کو تاریک خیال تصور کرتے ہیں۔ لیکن ان کو شائد معلوم نہیں ہے کہ روشنی حد سے زیادہ ہو جائے تو آنکھیں بھی چندیا جاتی ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب مہندی سوڈانی کے مجاہد برطانیہ کے سورماؤں کے آمنے سامنے ہوئے تو مہندی سوڈانی کے مجاہدوں نے جب اپنی تلوریں اپنے نیاموں سے نکالیں اور تپتے ہوئے سورج کی جب ان تلواروں پر روشنی پڑی انگریز سورماؤں کی آنکھیں بھی چندیا گئی تھیں جس سے مہدی سوڈانی کے مجاہدوں کا کام آسان ہو گیا آج بھی معلوم پڑتا ہے کہ حد سے زیادہ روشن خیالی ان روشن خیال دانشوروں کو اندھا کیے ہوئے ہے۔

ہر کام اعتدال میں کیا جائے تو بہتر ہوتا ہے اس لیے اگر روشن خیالی بھی اعتدال میں ہو تو قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔ اور اگر روشن خیالی میں اپنے ملک کے مفادات اور ملت کی غیرت کو بھلا دیا جائے تو ایسی روشن خیالی ہلاکت کا پیش خیمہ ہی ہو سکتی ہے۔

کیا یہ ہماری اپنی ہی ہلاکت نہیں کہ ہم پاکستان یعنی کہ اپنے پاکستان کے مفادات کی جگہ اوروں کے مفادات کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہوں۔ سیانے کہا کرتے تھے کہ اتنا میٹھا بھی نا ہو جاؤ کہ کوئی تمہیں کھا ہی جائے اور اتنے کڑوے بھی نا بنو کہ تھوک دیئے جاؤ۔ میں کوئی مذاکرات کے خلاف نہیں ہوں مگر مذاکرات میں سب سے پہلے برابری کا عنصر ہونا ضروری ہے، پھر اپنے ملک کے مفادات کو سامنے رکھ کر ملک و ملت کی غیرت اور خودمختاری کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

بھارت کے بلوچستان میں ملوث ہونے کے ثبوت رحمن ملک کے پاس موجود ہیں جن کا وہ بارہا کہہ چکے ہیں، خیبر پختون خواہ میں لگی آگ کی ذمہ داری بھی بھارت، امریکہ اور اسرائیل کے کھاتے میں جاتی ہے اس لیے پاکستان حکومت کو ہر موضوع پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔

انتہا پسندی اسلام کے خلاف ہے کسی کی ناحق جان لینا اسلام میں پوری انسانیت کی جان لینے کے مترادف ہے ،اسلام میں اعتدال پسندی پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن اسلام اس کی اجازت بھی ہرگز نہیں دیتا کہ اپنے دشمن کے سامنے ایک پل کے لیے بھی بچھے رہو۔

کیا امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر پورے عالمِ اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ نہی کیے ہوئے ہے؟؟ کیا بھارت اور امریکہ مل کر پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا رہے ؟ اگر ہاں تو مذاکرات کریں دشمن کے آگے لیٹیں نہیں کہ وہ آپ کو حقیر سمجھنے لگ جائے۔ اور یہ مذاکرات ایک بار پھر ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘ کی مثال بن جائیں۔



تبصرے

مشہور اشاعتیں