دنیا بھر میں امریکی موجودگی




آخر کار امریکہ کو شمسی ائیر بیس خالی کرنا ہی پڑا،کل امریکہ نے شمسی ائیر بیس پاکستانی افواج کے حوالے کر دیا ہے۔جنگی جنون میں مبتلا عالمی سپر پاور ملک امریکہ دنیا بھر کے ممالک میں اپنی فوج کی حاضری رکھنا چاہتا ہے اسی لیے اس نے دنیا کے ایک سو پینتیس ملکوں میں اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں،اس ملک کو جنگ کا جنون اس حد تک ہے کہ امریکہ روزانہ لاکھوں بلکہ کروڑوں ڈالرز ان فوجیوں اور اپنے فوجی اڈوں پر خرچ کرتا ہے۔حالانکہ یہی رقم اگر امریکہ دنیا بھر میں موجود غریب عوام پر خرچ کرے تو دنیا بھر سے غربت کے خاتمہ یا جا سکتا ہے۔امریکی محکمہ دفاع کی ویب سائیٹ کے مطابق امریکی آرمی ،نیوی،ائیر فورس،میرین اور کوسٹ گارڈ ز پر مشتمل لاکھوں امریکی فوجی دستے دنیا ھر کے ایک سو پینتیس ممالک کی آٹھ سو سے زائد جگہوں پر موجود ہیں۔جب کہ امریکہ نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی اہم ممالک میں اپنے فوفی اڈے بنا رکھے ہیں،اور ان اڈوں سے سی آئی اے اور امریکی خفیہ ایجنسیاں دنیا بھر کے ممالک میں فسادات ،بم دھماکے ، دوسرے ممالک کی حکومتوں کو بنانے اور گرانے کے مصروفِ عمل نظر آتا مگر اس کو کوئی یو این او یا کوئی بھی عالمی ادارہ روکنے کی صحیح نہیں کرتا۔عالمی حکمرانی کا خواب دیکھنے والا ملک امریکہ اور اس کی فوج اس وقت جرمنی ، برطانیہ ، جاپان، اٹلی، کوریا، یورپ، سوویت یونین،پاکستان،افیرقہ کے تمام ممالک ایشیا کے اکثر ممالک مطلب نیوزی لینڈ سے لے کر کے کو تو الاسکا تک آپ کو ہر ملک میں امریکہ ہی نظر آئے گا جس سے آپاس ملک کے جنگی جنون کا اندازہ لگا سکتے ہیں،ایک لاکھ سینتیس ہزار فوجی اس وقت صرف ایک ملک افغانستان میں موجود ہیں اسی طرح پچھلے سال تک پچاسی ہزار فوجی عرااق میں موجودرہے ہیں۔آج بھی یورپی ملک جرمنی میں 52 ہزرا فوجی ،جاپان میں 36 ہزار کے قریب فوجی اسی طرح کوریا میں انتیس ہزار اٹلی میں دس ہزار اور برطانیہ میں نو ہزار فوجی موجود ہیں یہ تو ابھی صرف چند ممالک کا حساب ہے باقی ماندہ ساری دنیا میں بھی پاکستان سمیت امریکی افواج کی موجودگی ہے،اس وقت پاکستان میں ایک سو چھیالیس امریکی فوجی موجود ہیں ان میں ایک سو تیس میرین ،گیارہ ائیر فورس اور چھ آرمی کے افراد ہیں۔اسی طرح امریکی حریف روس کی سابقہ ریاستوں سمیت رروس میں بھی امریکی افواج کی موجودگی 150 تک بتائی جاتی ہے۔اسی طرح مشرقی ایشیا کے مختلف ممالک میں امریکی افواج کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ ہیں،شمالی افریقہ میں چار ہزار اور جنوبی اور مشرقی افریقی ممالک میں امریکی فوجیوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ ہے۔جبکہ افریقی صحارہ میں بھی امریکی فوج کے 2000 کارندے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔
قارئین آپ یۂ جان کر حیران ہوں گے کہ امریکی جنگی بجٹ ساری دنیا کے کے جنگی بجٹ کے تقیباََ برار ہے۔جسکا کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دنیا بھر کا 43% جنگی بجٹ صرف اور صرف امریکہ کے زیرِ زستعمال ہے۔جس کا حجم سات سو ارب ڈالر سالانہ ہے۔قارئین یہ اتنے پیسے ہیں جن سے آپ ساری دنیا کی آبادی کو ایک سال تک کا راشن فری دے سکتے ہیں۔مگر امریکی جنون کا کیا کہنا کہ سات سو ارب ڈالر سالانہ وہ اپنے دفاع پر تو خرچ کرتا ہے مگر اس سے فلاحی کام نہیں کرتا ،اسی وجہ سے امریکہ آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ قرض دار ہے آج امریکہ بہادر کی معیشت کا حال یہ ہے کہ ہزاروں ارب ڈالر کی مقرض ہے ،یہاں تک کہ امریکی معیشت اپنے رقیب چین کی بھی اربوں ڈالر کی مقروض ہے۔دوسرے ممالک کو سہارہ دینے کے نام پر دوسرے ملکوں کی حکومتوں گرانے اور بنانے کے شوقین امریکہ کا حال اور مستقبل آج اتنا مخدوش ہو چکا ہے کہ امریکی معیشت ہچکولے لینے لگی ہے اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ کب یہ معیشت منہ کہ بل گرتی ہے۔اس لیے اب امریکہ کو چاہیے کہ وہ اپنے اس جنگی جنون سے نکلے اور ہر کسی کو اس کی مرضی سے جینے کا حق دے ،اور یوں ہی دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں ٹانگیں پھنسانے سے گریزر کے اسی میں اس کی بھلائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سب کی بھلائی ہے ،اقوامِ متحدہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور یوں دوسرے ممالک میں امریکی مداخلت کو روکنا چاہیے تاکہ دنیا میں امن امان کا قیام ممکن ہو سکے۔

تبصرے

مشہور اشاعتیں