’’دوسرا تھپڑ‘‘




تاریخ بھی انہیں لوگوں کو اپنے دامن میں محفوظ جگہ دیتی ہے جنہوں نے تاریخ کے ساتھ بے انصافی نا کی ہو جنہوں نے اپنے ملکوں اور سلطنتوں یا اپنے لوگوں یا دوسروں کے لیے کوئی تاریخی فیصلہ یا کوئی بہت بڑے کام کیے ہوں ،ورنہ ایسا بھلا دیا جاتا ہے کہ جیسے کل کا سورج۔۔صلاح الدین ایوبی ایک نڈر جنگجو تھا ،اس کی ساری زندگی اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے گزر گئی۔اس ے اپنے ملک کے لیے اپنے دین کے لیے اپنے لوگوں کے لیے قربانیاں دیں،اس نے اپنے ملک کو اس وقت کی عیسائی اور یہودی لابی سے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کو محفوظ کرنے کے لیے اس لابی کے سب سے بڑے مرکز کو فتح کیا،اور ایک بار پھر اس کو اسلام کا گہواراہ بنا دیا ،اس نے اس وقت کی یہودی ار عیسائی لابی کے خلاف طاقت اور سیاست دونوں میں مات دی اور اسلامی دنیا کو ان کی سازشوں سے محفوظ کر دیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ تاریخ نے نا صرف اس کو اپنے ماتھے کا جھومر بنایا بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے بھی نا قابلِ فراموش بنا دیا۔آج اسی صلاح الدین ایوبی کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔
بار ہا کہا گیا ہے کہ خدارا بار بار مرنے سے ایک بار کا مر جانا بہتر ہوتا ہے۔کیوں ایسے فیصلے نہیں کیئے جاتے جس سے اس ملک کی کچھ عزت بڑھ سکے کیوں ایسے فیصلے کر کر کے اس ملک کے عوام اور اس کے چاہنے والوں کو اذیت دی جاتی ہے جس سے ملک کا وقار اور عزت داؤ پر لگے۔یہاں میں ایک ایسی بات کہنے لے ہوں جو کسی بھی انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر ایک گھر ،ایک قوم ،یا پھر ایک ملک سب کے لیے ایک ہی طرح سے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔یہ ایک ایس ایم ایس جو مئجھے موبائل فون پر ریسیو ہوا تھا آپ میں سے بھی کئی دوستوں نے پہلے شائد پڑھ رکھا ہو ،وہ ایس ایم ایس کچھ یوں ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ اور گاندھی سے ایک ہی سوال کیا گیا لیکن دونوں کا جواب مختلف تھا سوال یہ کیا گیا کہ اگر ایک آدمی آپ کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کرے تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟؟
اس کے جواب میں گاندھی نے کہا کہ آپ کو اپنا دوسرا گال بھی اس کے آگے کر دینا چاہیے تاکہ وہ دوسرے گال پر بھی تھپڑ رسید کر سکے مگر قائدِاعظم نے جو جواب دیا آپ حیران ہوں گے کہ گاندھی سے بلکل الٹ اور میرے خیال میں انہوں نے زندگی جینے کا ایک بہت بڑا گْر یا یوں کہیں تو مناسب ہو گا کہ زندگی کو وقار سے جینے کا گْر بتا دیا فرمایا’’ کہ اگر آپ کے گال پر کوئی آدمی ایک تھپڑ رسید کرتا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے مگر اگر وہ دوسرا تھپڑ مارتا ہے تو یہ اآپ کی غلطی ہے‘‘مطلب یہ کہ پہلا تھپڑ مارنا اس کی غلطی تھی مگر دوسرا تھپڑ کھانا آپ کی غلطی ہے۔اگر ہمارے پیارے پاکستان کے حکمرانوں نے بھی یہی ایک فرمانِ قائد کو ذہن نشین کیا ہوتا تو آج ہم کو یہ دن نا دیکھنے پڑتے کہ ہر دوسرے دن نیٹو اور امریکی افواج ہمارے سرحدوں کی پامالی کرتے ہوئے ہمارے فوجی جوانوں کو شہید کرتے ہمارے ملک کی عزت اور وقار کو اپنے ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے شور میں دفن کرتے واپس اپنے ٹھکانوں پر چلے جاتے ہیں ،اگر یہی ایک فرمانِ قاد ہمارے آج کے حکمرانوں نے یاد رکھا ہوتا تو کسی ملک کی کیا جرا ء ت تھی جو یوں ہمارے ملک کی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے اب تک کی اطلاعات کے مطابق صرف اس ایک وقوعہ میں25 اہلکاروں کے شہید ہونے کی خبر بھی آتی ۔صرف اور صرف ہماری حکمرانوں بشمول فوجی قیادت کے کی ڈھیل کا ہی نتیجہ ہے کہ آج جب بھی نیٹو یا امریکی افواج کا دل کرتا ہے ہماری سرحدوں کو روندتے ہوئے ہمارے جوانوں کو شہید کرتے جاتے ہیں،اور کوئی بھی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ابھی خبر آئی ہے کہ نیٹو کی سپلائی بند کر دی گئی ہے ،اس سے کیا ہوگا کیا ایسے حملے بند ہو جائیں گے کیا دوبارہ نیٹو اور امریکی فوجی پاکستان کی سرحدوں پر حملے کرنے سے باز آ جائیں گے تو میرا خیال ہے کہ نہیں کیوں کہ ایسا پہلے بھی کئی بار کیا گیا ہے مگر کسی نا کسی طاقت کے کہنے پر یہ سپلائی کبی چند گھنٹوں اور کبھی چند دنوں میں ہی کھول دی جاتی ہے ہونا اب بھی یہی ہے آج بند کی گئی ہے تو کل کو پرسوں کو یا پھر دو چار دنوں میں پہلے معذرت کی جائے گی دو،چار بیانات اور پھر وہی کچھ جو پہلے ہو رہا ہے۔کیایہی اس کا حل ہے تو میرا خیال ہے یقینََا نہیں آپ کو روکنا ہو گا ،آگے بڑھ کر جھپٹنا ہو گا اگر آپ نے دنیا میں ایک باوقار طریقے سے جینا ہے تو آپ کو بہت بڑے اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے ایسے فیصلے جس سے آپ کا ملک آپ کے ملک کی سرحدیں محفوظ ہو سکیں ۔آپ کے ملک کی عوام آپ کے ملک کے لوگ محفوظ ہو سکیں۔آپ کو ایسے مشکل اور تلخ فیصلے کرنا ہوں گے جن سے بظاہر آپ کو نقصان ہو تا نظر آئے گا چند ٹکوں کا نقصان چند کاغذ کے ٹکڑوں کا نقصان میرا خیال میں یہ کوئی بڑا بھاری سودا نہیں ہوگا اگر آپ چند سکوں پر یا چند کاغذ کے ٹکڑوں پر ملک کے وقار اور ملک کی انااور ملک کی غیرت کو مقدم رکھیں گے تو اس میں آپ کی شان کا اضافہ بھی مغمر ہے۔لیکن یہ تبھی ممکن ہو سکتا جب آپ اپنی ذات اپنے لوگوں اور اپنے چاہنے والوں کی لغزشوں پر مکمل کنٹرول کریں گے۔کیونکہ عزت اور وقار والے فیصلے کرنے والے لوگ خود بھی عزت دار اور پر وقار ہوا کرتے ہیں۔اگر آپ خود ہی آدمی بے پر ہوں گے تو آپ سے ایسے فیصلے کی توقع۔۔۔؟؟؟
خدارا اپنا دوسرا’’ گال‘‘ آگے نا کریں ،یہ اس ملک کے وقار کا معاملہ ہے اس کا کچھ تو خیل کریں اور دو ٹوک موقف اختیار کریں ،ان سے پوچھیں کہ آپ کس کے ساتھ ہیں ؟آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن؟صرف تھوڑا سا حوصلہ کرنے کی ضرورت ہے ان کو نانی یاد آ جائے گی۔آپ نے ان کی سپلائی لائین بلاک کی ہے اس پر ہی قائم رہیں تو میرا خیال ہے یہی ایک عمل ان کو جھکنے پر مجبور کر دے گا اس کے عد آپ ان سے جو مرضی مطالبات منظر کروا سکتے ہیں مگر اس کے لیے آپ کو قائدؒ کے اس فرمان سے مستفید ہونا پڑے گا جس میں انہوں نے فرمایا ہے’’ کہ اگر آپ کے گال پر کوئی آدمی ایک تھپڑ رسید کرتا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے مگر اگر وہ دوسرا تھپڑ مارتا ہے تو یہ اآپ کی غلطی ہے‘‘کیونکہ آپ اس کو دوسرا مارنے کا موقع ہی کیوں دیتے ہیں پہلے پر ہی اس کے ہاتھ توڑے ہوتے تو آج یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتے۔۔۔۔۔

تبصرے

مشہور اشاعتیں