ٹی وی مناظرے یا جھوٹ کے گڑھ
سیاسی ماحول میں گرمی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اب یہ گرما گرمی اگلے آنے والے دنوں میں یہ سیاسی گرمی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔الیکشن سے پہلے ہی الیکشن کا سا سما بن چکا ہے آپ کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں یا کوئی ٹی وی چینل لگا کر دیکھیں آپ کو ہر جگہ ایک ہی موضوع زیرِ بحث ملے گا،وہ موضوع یہ ہو گا کہ آئند ہ کیا ہونے جا رہا ہے ۔کیا واقع ہی پاکستان میں اس ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کی اجارا داری ختم ہونے جا رہی ہے ؟کیا واقع ہی کوئی نئی قوت آنے والے الیکشنز میں پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں کی زینت بننے والی ہے اورپھر الزام در الزام ہیں جن کا سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔مسلم لیگ (ن) کے رہنماء اپنے قائد میاں نوازشریف کو فرشتہ ثابت کرتے نہیں تھکتے تو پی پی پی کے رہنماء اپنے قائد آصف زرداری کو دودھ میں نہایا ہوا ثابت کرنے کی تگ و دو میں نظر آئیں گے اب یہ دو پارٹیوں کے علاوہ ایک تیسری قوت پاکستان تحریک انصاف بھی اس چکر میں ڈال دی گئی ہے۔رات ایک ٹی ٹاک شو دیکھ رہا تھا جس میں پہلے صرف ن لیگ اور پی پی پی کے علاوہ کبھی کبھی ایم کیو ایم کے رہنماء مدعوء ہوا کرتے آج ان میں ایک آدھ پاکستان تحریک انصاف کا رہنماء بھی نظر آنے لگ کیا ہے۔بات ہو رہی تھی کرپشن پر کہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان کس پارٹی نے پہنچایا ہے اور کس پارٹی نے سب سے زیادہ کرپشن کی ہے ،ایک طرف مسلم لیگ ن اور دوسری طرف پی پی پی اور جب ان دونوں پر الزام باہر سے کوئی تیسری قوت لگاتی ہے تو یہ دونوں پارٹیاں آپس میں اکھٹی ہو جاتی ہیں ایک مثال یاد آگئی ہے ۔
مثال تو مثال ہی ہوتی ہے اور یہ مثال ایک حقیقت ہے نا کہ میں آپ کو کوئی کہانی سنانے کے موڈ میں ہوں !!
کتیا جب بھی بچے دیتی ہے تواکثر اوقات وافر مقدار میں اس کے گلورے پیدا ہوتے ہیں مثلا ایک کتیا ایک بار میں آتھ دس بچے (گلورے) جنم دے سکتی ہے۔جب وہ ان کو جنم دے لیتی ہے اور کچھ دنوں میں کھیلنے کودنے کے لائق ہو جاتے ہیں تو ان میں ایک بات مشاہدے کے قابل ہوتی ہے آپ لوگوں نے بھی کبھی شائد اس کا مشاہدہ کیا ہو گا کہ جب کتیا کے یہ گلورے کھیلتے ہیں تو سارا دن ایک دوسرے پر بھونکتے اور ایک دوسرے کو گراتے ایک دوسرے کو کاٹتے نظر آئیں گے،مگر جب ان کے دودھ پینے کا وقت ہو جاتا ہے تو سب کے سب اکھٹے ایک ہی جگہ مل جل لائین میں کتیا کا دودھ پی رہے ہوتے ہیں ،لیکن جیسے ہی یہ دودھ پی کر سیر ہو جاتے ہیں تو پھر وہی سلسلہ ایک دوسرے پر بھونکنا،ایک دوسرے کو کاٹنا اور ایک دوسرے کا نیچا دکھانے کی تگ و دو میں نظر آئیں گے ،
میرے خیال میں اس مثال کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیںآج پاکستان کے عوام اس قابل اور ان میں اتنا شعور پیدا ہو چکا ہے کہ آپ اس کو با آسانی ساری کہانی میں فِٹ کر سکتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی بڑے سیاستدانوں کے چھوٹے چھوٹے رہنماؤں کی جو اپنے بڑوں سے نمک حلالی ثابت کرنے کے لیے دوسرے لوگوں اور سیاستدانوں پر بے تحاشہ جھوٹے سچے الزامات کی بہتات کیے جانے میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔اوراپنے قائدین پر کوئی آنچ نہیں آنے دینا چاہتے۔میں نے جس ٹی وی ٹاک شو کی بات اپنے کالم کے آغاز میں کی اس میں ایک طرف مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی حنیف عباسی اور پی پی پی کی نمائندگی شرمیلا فاروقی اور تحریکِ انصاف کی نمائیندگی ایک ڈاکٹر صاحب کر رہے تھے ۔ان کا نام ذہن میں نہیں رہا۔ان ڈاکٹر صاحب نے نواز شریف پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے بے تہاشہ لوٹ مار اور کرپشن سے اتنی بڑی امپائر کھڑی کی ہے اور آج ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اپنے بچوں کے مقرض ہیں اس لیے وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حنیف عباسی اس کا جواب دیتے کہ بھائی ہمارے قاد نے کچھ بھی غلط نہیں کیا یا ناہوں نے کوئی کرپشن سے امپائر کھڑی نہیں اور اس کے یہ ثبوت ہیں ،یہ نہیں ہوا انہوں نے عمران خان کی ایک کتاب اٹھائی اور ہو گئے ان کے در پے کہ جناب آپ کے قائد نے بھی اتنی کرپشن کی ہے ان کی اتنی زمین ہے انہوں نے سیتا وائٹ اور پھر ناجانے کیا کیا ؟؟؟اور دوسری شرمیلا بی بی ہنس ہنس کر اس کا مزا لینے میں مصروف نظر آئیں،
بھائی یہاں میرا سوال یہ ہے اور مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے رہنماؤں سے ہے بلکہ گزارش ہے کہ وہ ا لزام در الزام نہیں بلکہ بڑے اور منجھے ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تمام سوالات کا جواب منصفانہ طریقے سے دیں یہ نہیں کہ اگر ہمارے قائد نے یہ کیا ہے تو تمہارے قائد نے بھی تو وہ کیا ہوا ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ ان کو نوشتہ دیوار نظر آ رہا ہے ،عوام میں جو شعور کی لہر داڑی ہے وہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔یہی شعور ان کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے جس سے بوکھلا کر یہ ایک دوسرے اور اپنے تمام مخالفوں پر بے تحاشہ الزامات کی بھرمار کیے ہوئے ہیں۔اب کبھی تو عمران خان کو اسٹبلشمنٹ سے جوڑا جا رہا ہے اور کبھی ان کو امریکہ سے جوڑا جا رہا ہے یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے کہ عوام کو اس سے متنفر کیا جائے،لیکن میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ ہو پائے گا ۔
ایسا بھی نہیں کہ ان تمام جماعتوں بشمول ن لیگ اور پی پی پی کے سب لگ ہی کرپٹ ہیں ان میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنا سیاسی کیرئر نہائت شاندار اور صاف ستھرا رکھا ہے مگر میرے خیال میں انہوں نے بھی اپنے کرپٹ ساتھیوں کی نا تو نشاندہی ہی کی اور نا ہی ان کے خلاف کو بات ہی کی اس لیے یہ لوگ بھی خاموش رہ کر ان کا ساتھ دیتے رہے ہیں اب کو بھی اپنا چپ کا رازہ توڑنا چاہیے اور جو بھی کرپٹ ہے خواہ وہ پارٹی کا قائد ہے یا پارٹی کا کوئی رہنماء ہے سب کو ایکسپوز کرنا چاہیے ۔اور ان سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لینی چاہیے نہیں تو عوام کا ان کا وہ حشر کرنے والے ہیں کہ شائد کبھی سوچ میں بھی نہیں آیا ہو گا۔اور ٹی وی پر بیٹھ کر یہ جو ڈرامے کیے جاتے ہیں ٹاک شوز کے نام پر جس میں ایک دوسرے کو لتاڑنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا کیون نا ایک بار سب کچھ کھول کر بیان کریں اپنے کیے پر نادم ہوں اور معافیاں مانگیں آئندہ نا کرنے کا عہد کریں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے مگر ایسا نہیں ہونے والا کوئی بھی اپنا پیسہ اس ملک کو دینے کے لیے تیار نہیں ہے سب اس کو کھا تو سکتے ہیں مگر اس پر لگا کچھ نہیں سکتے ۔پھر وہی مثال یاد آگئی ہے کہ ان کا یہ سب جو یہ ٹی وی ٹاک شوز پر ایک دوسرے کو لتاڑنے میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں یہ سب صرف نئی قوتوں سے خوف کے باعث ہے ورنہ یہ اسی مثال کی طرح اندر سے سب ملے ہیں اور اپنی اپنی باری کا انتظار کیا جا رہا ہے۔۔۔

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں